Top 10 similar words or synonyms for پرائی

پرایا    0.761043

جھمکا    0.737707

ککڑ    0.737011

sooraj    0.734171

روجا    0.728118

مکھناں    0.727869

تاپسی    0.723076

ہمراز    0.719179

کرت    0.717543

میگھا    0.714180

Top 30 analogous words or synonyms for پرائی

Article Example
کوکب نورانی اوکاڑوی آپ کا ابتدائی بچپن اوکاڑا ( پنجاب ) میں گزرا ، اشرف المدارس ہائی اسکول اور جامعہ حنفیہ اشرف المدارس ، جی ٹی روڈ ، اوکاڑا میں ابتدائی دِینی و دُنیوی تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے گیارہ برس کی عمر میں مولانا قاری محمد عبداللطیف امجد سعیدی سے قرآن پاک حِفظ کیا ، میٹرک کا امتحان آپ نے گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول نمبر 1 ، پی ۔ ای ۔ سی ۔ ایچ سوسائٹی کراچی سے 1971ء میں پاس کیا۔ آپ نے انٹر کا امتحان گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی سے 1973ء میں پاس کیا، مزید تعلیم آپ نے پرائی ویٹ حاصل کی ، اور ڈاکٹریٹ ( پی ایچ ڈی ) کی ڈگری بیرونِ ملک سے حاصل کی ۔
نادرہ (اداکارہ) بالی وڈ کی مشہور اداکارہ ۔ اصل نام فلورنس ازاکیل تھا۔ وہ فلموں میں کام کرنے کے لیے مشرق وسطی سے بھارت آئی تھیں۔ فلمساز محبوب خان نے فلم ’ آن‘ میں انہیں ان کی زندگی کا یادگار رول دیا۔ خوبصورت اداکارہ نے ایسے وقت میں ویمپ کا کردار کرنا شروع کیا جب ہیروئین شرمیلی گھریلو خواتین کا کردار کرنا پسند کرتیں تھیں۔ وقت کے رخ کو اپنے انداز میں موڑنے والی نادرہ کو فلم ’جولی‘ میں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کے ساتھ فلم ’آن‘ راج کپور کے ساتھ فلم ’شری چار سو بیس‘ ، ’ دل اپنا‘ اور ’پریت پرائی‘ ، ’ پاکیزہ‘، ’جولی‘ ، ’ تمنا‘ اور ٹی وی سیرئیل ’مارگریٹا‘ میں ان نادرہ نے بہترین اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اپنی آخری عمر کافی تنہائی اور تکلیف میں گزاری۔ کوئی ان کا پرسان حال نہ رہا۔ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ممبئی کے ایک ہسپتال میں جان دے دی۔
آدنت مارتنڈ ماتنڈ، آدنت مارتنڈ "آدنت مارتنڈ" ہندی کا پہلا اخبار مانا جاتا یے۔ یہ کولکتہ سے مئی 1811 میں شائع ہوا۔ یہ ہفتہ وار تھا اور ہر منگل کو کتابی شکل میں 8 ضرب 14 چھپا کرتا تھا۔ کل 79 شمارے نکلے۔ دسمبر 1811 میں اس کی اشاعت بند ہو گئی۔ کانپور کے سری جگل کشور شکل اس کے مدیر تھے۔ اس اخبار کی اشاعت سے پہلے انگریزی، فارسی اور بنگلہ میں بہت سے اخبار چھپتے تھے۔ ہندی میں اس وقت تک کوئی اخبار نہیں نکلا تھا۔ پہلی اشاعت میں لکھا گیا ہے کہ" ان کا ( بنگلہ، انگریزی اور فارسی اخباروں کا) سکھ ان بولیوں کے جاننے اور پڑھنے والوں کو ہی ہوتا ہے۔ اسے سچی خبریں ہندوستانی لوگ آپ پڑھ اور سمجھ لیں اور پرائی آپکیشا (خواہش) نہ کریں جو اپنے بھاشا کی ایچ نہ چھوڑیں اس لیے ساہس (ہمت) مینچت (دل) لگا کر ایک پرکار سے یہ بنا ٹھاٹ ٹھاٹا"
مباح اسی طرح عمدہ اور لذیذ کھانے کھانا بھی مباح ہے لیکن یہ کھانا اگر اس نیت سے ہو کر اس کھانے سے جو طاقت حاصل ہوگی اس کو نیک کاموں میں صرف کرے گا تو اس کا کھانا بھی عبادت ہے اور کار ثواب ہے اور اگر یہ کھانا اس نیت سے ہو کر اس سے جو طاقت حاصل ہوگی اس کو برائی کے راستہ میں خرچ کرے گا تو اس کا کھانا بھی گناہ ہے اور باعث عذاب ہے، اسی طرح قیمتی اور خوبصورت لباس پہننا مباح ہے لیکن اگر اس نیت سے قیمتی کپڑے پہنے کہ اللہ کی نعمت کا اظہار ہو، لوگ اس کو برے حال میں دیکھتے تو اس کی غیبت اور بدگوئی کرتے وہ اچھے کپڑے پہن کر ان کو غیبت اور بدگوئی سے بچاتا ہے تو اس کا قیمتی اور خوبصورت کپڑے پہننا بھی عبادت ہے اور اگر وہ قیمتی کپڑے اپنی برتری کے اظہار اور تکبر کرنے اور اترانے کے لئے یا پرائی عورتوں کو لبھانے کے لئے پہنے تو اس کا قیمتی کپڑے پہننا بھی گناہ ہے اور باعث عذاب ہے۔
سید فضل حسین شاہ وہ ایک روشن خیال ٹیچر ہونے کے باوجود اپنی بیٹیوں کو پرائمری سے زیادہ تعلیم دینے کے حق میں نہیں تھے، انہوں نے اپنے ایک یتیم بھانجے خوشنود المعروف ٹہلا شاہ کو بھی سکول نہیں بھیجا بلکہ اسے پرائی اولاد سمجھ کر نہ صرف اپنا بے دام نوکر بنایا بلکہ ان کی اولاد نے ان کے بعد اسے باقاعدہ غلام سے بھی بد تر بنا دیا، دنیا جانتی ہے کہ ان کا ایک بیٹا اسے خنازیر کا مریض ہونے کے باوجود پتھروں سے مار مار کر لہو لہان کر دیا کرتا تھا، اس غلامی سے اس نے 1966 میں فرار ہو کر نجات پائی، جو سید فضل حسین شاہ کے مشن، تدریس کے مقدس مشن اور بہنوں اور بیٹیوں کی اولاد کے ساتھ امتیازی اور متعصبانہ سلوک کی وجہ سے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان کے خانگی کردار پر ان کے چھوٹے بھائی اشرف شاہ بھی عمر بھر شاکی رہے۔ ان کی بعض خانگی پالیسیوں کی وجہ سے ان کے بہنوئی سید غلام نبی شاہ، سید محمود شاہ، سگے بھائی سید غلام رسول شاہ کا ان سے زندگی بھر اختلاف رہا، انہوں نے ایک دوسرے کی غمی خوشی کو بھی چھوڑ دیا، واقفان حال جانتے ہیں کہ اگر ان کا سسرال ان کا ساتھ نہ دیتا تو شاید ان کا باقی رہنا بھی ممکن نہ ہوتا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنی مشکلات کے باوجود انہوں نے عزت اور شہرت کمانے کے علاوہ جتنی بیروٹ میں جائداد بنائی اتنی ان کے خاندان میں کسی کو آج تک نصیب نہیں ہوسکی تاہم وہ اپنی حقیقی بیٹیوں کو بھی اپنی جائداد میں حصہ دینے سے عملی طور پر محروم رہے یہی وجہ ہے کہ آج ان کی پانچ بیٹیوں کا نام ان کی جائداد کے کاغذات میں موجود نہیں ہے۔