Top 10 similar words or synonyms for چکاہے

تی    0.675505

سکتاہے    0.664321

جائینگے    0.663765

ئیں    0.653816

چکا    0.638967

چکیں    0.637463

جائیگی    0.629240

گیئں    0.626773

سنور    0.618979

تمہی    0.613166

Top 30 analogous words or synonyms for چکاہے

Article Example
اسلام میں پردہ کی اہمیت اور شرعی حکم نبی اکرم کایہ ارشاد اس سے قبل بیان کیا جا چکاہے کہ :
نیویارک انڈیپینڈنٹ فلم اینڈ ویڈیو فیسٹول یہ فیسٹول ماضی میں تنقید کا نشانہ بھی بن چکاہے، جس کی وجہ فیسٹیول میں انٹری کیلئے تین سو ڈالر کی انٹری فیس ہے۔
اناطول فرانس اناطول فرانس فرانس کے مشہور ناول نگار گذرے ہیں، وہ 16 اپریل 1844 کو پیدا ہوئے اور 12 اکتوبر 1924 کو وفات پائی۔ان کے ناول تائیس کو نوبل انعام بھی مل چکاہے۔
علامہ محمد علی فاضل ۵۔میزان الحکمت:آیت ا...محمد،محمدی ری شہری کی دس ضخیم جلدوں پرمشتمل تقریباً۵۲ہزاراحادیث معصومین (ع) کامجموعہ ہے،اس کتاب کی دس جلدوںکاترجمہ آپ ہی کے قلم کاشاہکارہے جن میں سے آٹھ کا ترجمہ چھپ چکاہے ،باقی دوکاترجمہ ہوچکاہے جوعنقریب چھپ کرمنظرعام پرآنے والاہے۔انشاءاللہ۔
ثقلی مدد مدد دراصل کسی بھی اجرام فلکی کی طرف سے خلائی جہاز کو اپنی طرف کھینچنے سے ملتی ہے۔ 1961 میں پہلی بار اس کی تجویز پیش کی گئی تھی اور میرینر دہم سے لے کر اب تک اسے بہت بار استعمال کیا جا چکاہے۔ اس کی مشہور مثالوں میں وائجر نامی خلائی جہاز کے مشتری اور زحل کے گرد سے ثقلی مدد حاصل کرنا تھے۔
شیخ محسن علی نجفی 01۔ الکوثر فی التفسیر القرآن 10 جلدیں 02 ۔ بلاغ القرآن (ترجمہ و حاشیہ) (جو چھ سالوں میں سات بار چھپ چکاہے) 03۔ النھج السوی فی معنی المولیٰ والولی 04۔ دراسات الایدو الوجیۃ المقارنۃ 05۔ محنت کا اسلامی تصور 06۔ فلسفہ نماز 07۔ راہنماء اصول 08۔ تلخیص المنطق للعلامۃ المظفر 09۔تلخیص المعانی للتفتازانی 10۔ اسلامی فلسفہ اور مارکسزم 11۔ تدوین و تحفظ قرآن 12۔ شرح و ترجمہ خطبہ زھراء سلام اللہ علیہا 13۔ آئین بندگی 14۔ بیسیوں علمی مقالات جو مختلف ملک اور غیر ملکی جرائد و مجلات میں چھپ چکے ہیں۔
سقوطِ خلافت مسلمان اس وقت بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔فلسطین ، چیچنیا، کشمیر ، افغانستان ، عراق وغیرہ ممالک میں ان کے ساتھ جو کچھ پیش آرہاہے اس سے ہر شخص واقف ہے۔ مسجد اقصیٰ،مسجد قرطبہ او ربابری مسجد ہنوز اغیار کے قبضہ ناجائز میں بلک رہی ہیں اور مسلمانوں کواپنے تحفظ کے لئے دہائی دے رہی ہیں۔ مسلمانوں کی جان ومال عدم تحفظ کا شکارہے۔ مسلمان مسلکوں ،جماعتوں اور تنظیموں میں بٹ چکے ہیں۔ یہ جماعتیں آپس میں برسر پیکار ہیں۔ اغیار ان کے درمیان اختلاف کو ہوا دے رہے ہیں۔ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار وں کو آزمارہے ہیں۔ملّی شیرازہ بکھر چکاہے۔ سودی لعنت مسلط ہے ،مسلمانوں کے جوان دشمنانِ خدا کی تہذیب اپنارہے ہیں ، اسلامی تہذیب سے متنفر ہیں ،لذت پرستی اور زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی ہوس ان پر سوارہے۔ جفاکشی ، محنت اور سخت کوشی سے وہ بہت دور ہیں۔ مہلک رسموں میں گرفتار ہیں۔ ان حالات میں ایک ہی چیز مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کرواسکتی ہے۔ ان کے درمیان اتحاد واتفاق قائم کرسکتی ہے ، ان کے مسائل حل کرسکتی ہے اور وہ ہے خلافت۔
فریاد آزر ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ بالا سنہرے لفظ کی توضیح و تشریح اور سورج کی اساطیر اس شعر کا آر کی ٹائپی نقش ہے جس کا ذکر ابھی کیاگیاہے۔سورج سحر کی تلاش میں نا معلوم زمانوں سے سفر میں ہے۔رات نا معلوم زمانوں سے سورج کو اپنے گربھ میں رکھتی آئی ہے اور سفر میں ہے۔ستارے ،چاند اور خود سحر بھی۔ کیا خوب مصرع ہے،’سب سفر میں ہیں کسی کا ہم سفر کوئی نہیں ہے‘۔سحرآتی ہے تو رات چلی جاتی ہے،شام آتی ہے تو دن چھپ جاتاہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ شعر میں اس المیہ کو سامنے لاکر شعری کردار نے کیا کہنا چاہاہے۔شاید یہ کہ اشارہ ایک ایسی شاندار قوم اور اس کے کارواں کا پوری دنیا میں پھیلنا ہے جس کی پہچان اجتماعیت تھی۔یعنی آج کے مسلمان جو نماز جمعہ، با جماعت نمازوں،عیدین اور نہ جانے ایسے کتنے ہی موقعوں پر وہ ایک ایسی جماعت کی صورت میں نظر آتے ہیں جن میں احساس اجتماعیت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ دم توڑ چکاہے۔معنی کا ایک اور قرینہ اس شعر سے سامنے آتاہے جو عصر حاضر کے انسانوں میں اپنی ذات کے خول میں بند ہو جانے جیسی منفی قدر کی نشان دہی کرتاہے۔اجتماعی زندگی کا یعنی مل جل کر رہنے کا صدیوں پرانا انسانی وصف آج کے صارفی سماج میں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ کی صورت میں بکھر گیا ہے۔
شمس الدین عظیمی خواجہ شمس الدین عظیمی کا نام پاکستان میں صوفیانہ افکار کے فروغ و اشاعت میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے تصوف روحانیت ، پیراسائیکالوجی اور دیگر موضوعات پر تین درجن سے زائد کتابیں اور اسی سے زائد کتابچے تحریر کئے ۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی بعض کتابوں کا انگریزی ، عربی ، فارسی ،روسی ،تھائی، سندھی اور پشتو زبانوں میں ترجمہ ہو چکاہے۔ خواجہ شمس الدین عظیمی تقریباً چار عشروں سے تصنیف و تالیف اور تحریر کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ شمس الدین عظیمی نے 1950ء کے عشرے میں کراچی سے ایک رسالہ ’’آفتاب نبوت‘‘ جاری کیاجو ڈیڑھ دو سال تک شائع ہوتارہا۔اس کے بعد تحریر و تصنیف کے شعبہ میں ایک طویل وقفہ رہا۔1969ء میں روزنامہ حریت کراچی میں ایک کالم بعنوان ’’روحانی علاج ‘‘لکھنا شروع کیا جو چند ہفتوں میں ہی بہت مقبول ہوگیا۔چند سال بعد شمس الدین عظیمی نے روزنامہ جنگ (پاکستان اور روزنامہ لندن ایڈیشن) روزنامہ ہفت روزہ اخبار جہاں میں کالم لکھنا شروع کئے ۔علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کے مڈویک میگزین میں شمس الدین عظیمی نے پیراسائیکالوجی کے زیر عنوان مضامین بھی لکھے۔ مذکورہ اخبارات کے علاوہ شمس الدین عظیمی کے کالم ومضامین کئی دوسرے اخبارات وجرائد میں شائع ہوئے ۔ 1978ء میں شمس الدین عظیمی نے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی سے شائع کرنا شروع کیا جو اپنے آغاز سے تاحال باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ روحانی ڈائجسٹ میں شمس الدین عظیمی نے مسائل کے حل کے لئے ایک مستقل کالم روحانی ڈاک کے علاوہ نورالٰہی ،نور نبوت کے نام سے مختصر مضامین ،آواز دوست کے نام سے اداریئے تحریر کئے ۔ چند سال بعد صدائے جرس کے عنوان سے مضامین لکھنے شروع کئے۔ ان کے علاوہ مرکزی مراقبہ ہال میں ہر جمعہ کو ہونے والی محفل مراقبہ میں شمس الدین عظیمی کی تقاریر بھی بعد ازاں روحانی ڈائجسٹ میںشائع ہوتی رہیں۔شمس الدین عظیمی کا ایک کالم روحانی سوال وجواب کے زیر عنوان بھی ہرماہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوتاہے۔
فریاد آزر آزر کا تعلق تخلیق کے اس تلازماتی نظام اور تناظر سے ہے جس سے تخلیق میںتازگی ، تحیر اور تابندگی آتی ہے ۔ انہوںنے’ تخلیقی اجتہاد‘سے کام لیا ہے اور تقلیدِ جامد سے گریز کیا ہے اور ایک نئی تخلیقی سمت کی تلاش نے ان کی شاعری کو اس بھیڑسے بھی بچالیا ہے جس میںاکثر فن پارے اپنے نام و پتہ کی تلاش میںمدتوںبھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ولی دکنی نے بہت پہلے کہا تھا ‘‘ تاقیا مت کھلا ہے باب سخن...فریاد آزر کی شاعری میں باب ِسخن کے نئے نئے در کھلے جا تے ہیںاور ہمیں تحیرات سے ہم کنار کرتے ہیں ۔ خوشی ہوتی ہے کہ صنعتی ومشینی عہد میںآزر کے اندر کا احساس اور اضطراب زندہ ہے اور اس کی لہریںان کی شاعری میںبھی نظر آتی ہیں۔فریاد آزر کی شاعری میںجو احساس و اظہار ہے، وہ ’آج‘ سے عبارت ہے جس میں‘گذشتہ‘مکمل طور پر نہ شریک ہے اور نہ ہی مکمل طور پر متروک کہ ان کا حال ماضی سے مستعار نہیںمگر مستنیر ضرور ہے ۔ آزر کا تخلیقی احساس منفرد اور مختلف ہے ۔ زندگی کے تعلق سے ان کا Dynamic Approachہے ۔آج کی زندگی کی صورت حال اور انسانی متعلقات کے حوالے سے ان کا زاویہ نظر جداگانہ ہے ۔ ان کے یہاںاس انسان کی جستجو ملتی ہے جو ‘گلوبل گاؤں‘ میں اپنی شناخت کھو چکاہے اور بے چہرگی جس کی پہچان ہے۔بنیادی انسانی اقدار سے منحرف اور ٹکڑوں میںبٹے ہوئے انسانی وجود کے ذہنی و فکری بحران اور انتشار و اختلال کو انہوںنے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ ان کی شاعری کے ذریعہ انسان کی دا خلی ‘ خارجی صورتحال سے آگہی ہوتی ہے۔ Globalised Society اور ملٹی کلچر ایج میں سماجی، سیاسی اقدار میں تبدیلیاں آئی ہیں اور انسانوںکے ذہنی زاویے بھی بدلے ہیں۔ ایسی بدلتی ہوئی صورتحال میںان کی تخلیق نہ صرف آج کے مسائل پر نگاہ ڈالتی ہے بلکہ آج کے معاشی‘ اقتصادی‘ سماجی‘تہذیبی نظام سے بھی بے خوف مکالمہ کرتی ہے۔