Top 10 similar words or synonyms for حسینی

شیرازی    0.787265

زادہ    0.786904

مرتضی    0.786702

آقای    0.772608

مظاہری    0.766133

تھانوی    0.759109

امین    0.756359

قدس    0.753323

قادری    0.748565

شاه    0.747150

Top 30 analogous words or synonyms for حسینی

Article Example
حائر حسینی سب سے پہلے لفظ حائر زیارت امام حسین(ع) کی زیارت کے آداب و فضائل کے سلسلے میں امام صادق(ع) سے منقولہ حدیثوں میں استعمال ہوا ہے اور اس کا اطلاق مرقد منور کے محصور احاطے پر ہوا۔ رفتہ رفتہ یہ اصطلاح شیعیان اہل بیت(ع) کے درمیان رائج ہوئی اور مذکوہ مرقد اور اس کے ارد گرد کی حدود کو حائر حسین اور حائر حسینی کہا جانے لگا۔
حائر حسینی امام صادق(ع) سے منقولہ احادیث کے مطابق، حرم کی حدود مختلف طریقوں سے معین کی گئی ہیں جن میں فرسخ اور ذراع کو بھی معیار قرار دیا گیا ہے۔ ان بظاہر متعارض احادیث کو جمع کرکے کہا گیا ہے کہ ان احادیث میں معین کردہ تمام مقامات حرم کے احاطے میں آتے ہیں اور لائق احترام ہیں؛ تاہم فضیلت کے مراتب مختلف ہیں؛ جو مقام، امام (ع) کے مدفن کے قریب تر ہو اس کی حرمت و شرافت بیش تر ہے۔ حرم کی حدود کے لئے کم از کم فاصلے مدفن امام(ع) سے 20 سے 25 ذراع تک ہیں، اس بنا پر حائر کا تقریبی قطر 22 میٹر قرار دیا گیا اور یوں حائر کی حدود ایک طرف سے امام صادق(ع) کے زمانے میں مدفن کے ارد گرد کے احاطے سے اور دوسری طرف سے ان اقوال سے، مطابقت رکھتی ہیں جن میں مقام شہادت (مشہد)، مسجد اور مرقد کو حرم اور حائر سمجھتے ہیں۔
حائر حسینی جن احادیث کی بنیاد پر یہ فقہی حکم صادر ہوا ہے، ان میں بیان ہوا ہے کہ جن حدود میں زائرین امام حسین(ع) کے لئے پوری نماز پڑھنا جائز ہے اس کو حرم، حائر یا مدفن کے پاس ("عِندَ القَبرِ")، کے جیسے عناوین دیئے گئے ہیں۔۔ بعض فقہاء۔ نے حائر کی حدود کے لئے مرکزی نقطے (قبر امام(ع) سے) کئی فرسخ کے فاصلے پر دلالت کرنی والی احادیث سے استناد کرتے ہوئے پورے شہر کربلا کو حائر ـ اور اس حکم کا مصداق ـ قرار دیا ہے؛ لیکن فقہاء کی اکثریت نے اس حکم کو صرف حائر حسینی کے مفہوم خاص ـ یعنی حرم کے اہم ترین قریبی حصے ـ کی حد تک قبول کیا ہے۔۔ البتہ حائر کی دقیق اور صحیح حدود کے سلسلے میں ان کی آراء و اقوال میں فرق ہے، جیسے:
حائر حسینی امام حسین علیہ السلام کے مزار اقدس پر عمارت کی تعمیر کا تعلق آپ(ع) کی شہادت کے فورا بعد کے ایام سے ہے اور روایات میں ہے کہ سنہ 65 ھ تک قبر مطہر پر صندوق رکھا گیا تھا اور اوپر چھت تعمیر کی گئی تھی؛ تاہم بظاہر حائر حسینی پر سب سے پہلا بقعہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی (مقتول بسال 67 ھ) کے زمانے میں ـ امام حسین علیہ السلام کی خونخواہی کے لئے شروع کی جانے والی تحریک میں ان کی کامیابی کے بعد ـ (بسال 66 ھ) تعمیر ہوا ہے۔ اینٹوں کی اس عمارت پر ایک گنبد بنا ہوا تھی اور اس کے دو دروازے تھے۔۔ دوسرے شہدائے کربلا کا مقبرہ عمارت کے باہر واقع ہوا تھا مرقد امام حسین(ع) کی زيارت کے آداب و فضائل کے سلسلے میں امام صادق(ع) سے منقولہ بعض احادیث معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمارت آپ(ع) کے دور تک موجود تھی۔
حائر حسینی حائر حسینی کی تعمیر یا انہدام کے سلسلے میں حکومتوں کی روش یکسان نہ تھیں۔ مثال کے طور پر امویوں کے دور میں زائرین امام حسین علیہ السلام کے خلاف تشدد آمیز رویوں اور سخت گیریوں کے باوجود حائر کو کبھی منہدم نہیں کیا گیا لیکن بعض عباسی خلفاء، منجملہ ہارون الرشید اور متوكل عباسی، نے کئی بار حائر پر تعمیر شدہ عمارت کو منہدم کیا تاکہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کے آثار مٹ جائیں اور لوگ وہاں زيارت کے لئے نہ آئیں۔ متوکل نے اس غرض سے حکم دیا ہے حائر کی زمین میں ہل چلایا جائے اور مقبرے پر پانی چھوڑ دیا جائے۔۔ ان کے مقابلے میں آل بویہ، آل جلائریہ، صفویہ اور قاجاریہ کے ادوار میں حرم حسینی کی توسیع و تزئین کے لئے بنیادی اقدامات عمل میں لائے گئے۔ تخریب و انہدام کا تازہ ترین اقدام اس وقت انجام پایا جب وہابیوں نے سنہ 1216 ھ میں کربلا پر حملہ کیا۔ اس حملے میں شہر کے باشندوں اور زائرین حسینی کا قتل عام کیا گیا، حائر حسینی کو منہدم کیا گیا اور اموال کو لوٹ لیا گیا۔ محمد سماوى (وفات 1371ھ) اپنی کتاب "مجالى اللُطف بأرض الطَّف"، نے حائر حسینی کی تخریب و تعمیر کے مختلف مراحل کو منظوم کیا ہے۔
حسینی برہمن جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو امام حسین سے غیر معمولی عقیدت تھی۔ پروفیسر رفیعہ شبنم نے اپنی کتاب"ہندوستان میں شیعیت اور عزاداری" میں جھانسی کی رانی کے تعلق سے لکھا ہے کہ "وہ یوم عاشورہ بڑے خلوص وعقیدت کے ساتھ مجلس عزا برپا کرتی تھی۔ مہارانی لکشمی بائی کی قائم کردہ مجلس اب تک جھانسی پولیس کوتوالی میں منعقد کی جاتی ہے جہاں پہلے اس رانی کا قلعہ تھا جس نے امام حسین علیہ السلام سے حق پر ڈٹے رہنے کا سبق حاصل کیا تھا "۔منشی جوالہ پرشاد اختر لکھتے ہیں کہ"صوبہ اودھ میں امام حسین کی فوج کے سپہ سالار اور علمبردار عباس کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھا جس کے اٹھانے کا سہرا مغلیہ فوج کے ایک راجپوت سردار دھرم سنگھ کے سر ہے"۔اودھ سلطنت میں لکھنؤ کی عزاداری کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ محرم کی مجلسوں اور جلوسوں میں ہندوﺅں کی شرکت و عقیدت ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا ایک ایسا نمونہ ہے جس نے قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
حسینی برہمن آندھراپردیش کے لاجباڑی ذات سے تعلق رکھنے والے اپنے منفرد انداز میں تیلگو زبان میں دردناک لہجہ میں پر سوز المیہ کلام پڑھ کر کربلا کے شہیدوں کو اپنی عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح راجستھان کی بعض ہندو ذات کے لوگ کربل اکی جنگ کا منظرنانہ پیش کرتے ہیں اور ان کی عورتیں اپنے گاﺅں کے باہر ایک جلوس کی شکل میں روتی ہوئی نکلتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنی مقامی زبان میں یزیدی ظلم پر اسے کوستی ہیں اور اپنے رنج وغم کا اظہار اپنے بینوں کے ذریعے کرتی ہیں۔ راجستھان میں ہندوﺅں کی عزاداری کا اندازا اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراجے جو ہندو سوراج کے لقب سے جانے جاتے تھے شب عاشور سر و پا برہنہ نکلتے تھے اور تعزیہ پر نقدی چڑھایا کرتے تھے۔
حسینی برہمن بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا اپنی اشاعت 21 جنوری 2008 کو، حسینی برہمن، کے عنوان سے لکھتا ہے کہ محرم کے ایام ہندوستان میں بڑی عقیدت سے منائے جاتے ہیں خصوصاً راجستھان، پنجاب اور مدھیہ پردیش کہ جہاں پر حسینی برہمنوں کے کئی خاندان اور ان کے ماننے والے آباد ہیں۔ یہ لوگ دت بھی کہلاتے ہیں۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بزرگ راہیب اور ان کے بیٹوں نے 10 اکتوبر 680 عیسوی میں کربلا کے میدان میں حسینی فوج کے ساتھ مل کر یزیدی لشکر سے جنگ کی۔ یہ لوگ عاشورہ کے روز واقعہ کربلا کا نقشہ کھینچتے ہیں، ان کی عورتوں اور بچوں نے بینر اٹھا رکھے ہوتے ہیں جن پر امام حسین اور راہب کی یاد میں کلامات درج ہوتے ہیں۔ یہ بلند آواز میں یزیدی ظلم کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ ماتم بھی کرتے ہیں، بلیڈ سے اپنا سینہ اور زنجیروں سے کمر کو زخمی کرتے ہیں اور نذر نیاز بھی دیتے ہیں۔
حائر حسینی حائر کے معنی حیران و سرگردان کے ہیں۔ ایسا مقام جس کا درمیانی حصہ ہموار اور چاروں اطراف سے بلند ہو اور اس میں جمع ہونے والے پانی کے لئے نکاسی کا راستہ نہ ہو تو اسے بھی "حائر" کہتے ہیں ۔ زمین کربلا کے ناموں میں سے ایک نام "حائر" بھی ہے۔ اس مقام سے منسوب افراد حائری کہلاتے ہیں۔
حائر حسینی حرم حسینی شیعیان اہل بیت(ع) کے نزدیک بہت زیادہ حرمت کا حامل ہے۔ آئمۂ معصومین علیہم السلام دشواریوں اور حکام وقت کے شدید دباؤ اور سخت گیریوں کے باوجود کربلا کی فضیلت اور حائر حسینی کی رفیع منزلت بیان کرکے لوگوں کو اس کی زیارت اور تکریم و تعظیم کی رغبت دلاتے تھے۔ متعدد احادیث میں، اخروی اجر و ثواب اور حرم امام حسین(ع) کی زیارت کے آثار کے علاوہ، حرم میں حاضری کے آداب اور آنجناب کے مزار کی زيارت کے طریقے بھی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔