Top 10 similar words or synonyms for انجم

خاور    0.859488

نسیم    0.852304

صدیقی    0.851697

ارشد    0.845195

ساجد    0.835939

ہاشمی    0.834828

حفیظ    0.828311

اعجاز    0.824962

نقوی    0.822729

بدایونی    0.822082

Top 30 analogous words or synonyms for انجم

Article Example
سہیل انجم بچپن اور تعلیم : بچپن وطن میں گزرا۔ ابتدائی اردو فارسی تعلیم گھر پر ہوئی۔ اور ابتدائی تعلیم مقامی اسکولوں میں ہوئی۔ انھوں نے یو پی بورڈ سے ۱۹۷۳ میں ہائی اسکول، مارواڑ انٹر کالج گورکھپور سے ۱۹۷۶ میں انٹر میڈیٹ، رتن سین ڈگری کالج بانسی ضلع بستی سے 1979میں بی اے اور مسلم یونیورسٹی علیگڑھ سے 1981میں اردو سے ایم اے کیا۔ ان کی اردو کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ انھوں نے گریجو یشن میں پہلی بار اردو کو بحیثیت سبجکٹ اختیار کیا۔
خلیق انجم خلیق انجم 1935ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام خلیق احمد خان تھا۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن اور ایم اے (اردو) دہلی یونیورسٹی سے پاس کیا۔ بعد ازاں دہلی یونیورسٹی سے مشہور شاعر اور صوفی بزرگ مرزا مظہر جان جاناں کی شخصیت و فن پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
سہیل انجم روزنامہ قومی آواز میں انھیں تجربہ کار صحافیوں کے ساتھ کام کرنے اور بہت سیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں ان کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں اور انہیں بھٹی میں تپ کر کندن بننے کا موقع مل گیا۔ ان کے بارے میں مرحوم صحافی جناب محفوظ الرحمن نے ایک مضمون میں لکھا ہے ’’سہیل انجم برسہا برس تک صحافت کے خارزار میںاپنے تلووں کو لہولہان کرتے رہے ہیں ۔ وقت کی چلچلاتی دھوپ میں وہ ایک مدت تک کسی شجر سایہ دار یا سائبان کی تلاش میں سرگرداں رہے ہیں اور محسوس ہوتاہے کہ ان کی تحریروں میں تحمل، قوت برداشت ، ہر تلخ بات کو نرم لہجے میں کہہ ڈالنے کی غیرمعمولی صلاحیت اور تنقیص کے بجائے صحت مند تنقید کی ڈگر پر چلتے چلے جانے کا حوصلہ غالباً انہی دنوںکی دین ہے‘‘۔
سہیل انجم سہیل انجم صحافتی دنیا میں ایک دیانتدار صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ مرحوم محفوظ الرحمن کی صحبت اور تربیت نے ان کے اندر بھی تقریباً وہی ساری خوبیاں پیدا کر دی ہیں جو مرحوم کے اندر تھیں۔ سہیل انجم کی تحریروں میں ادبی چاشنی بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ادبی حلقوں میں بھی معروف ہیں۔ بیشتر ادبی پروگرامو ںاور سمیناروں میں پیپر پڑھنے کے لیے بھی انھیں مدعو کیا جاتا ہے۔ ادبی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’مطالعات‘‘ بھی ان کے ادبی ذوق کا ثبوت ہے جس میں تقریباً سو کتابوں پر تبصرے کیے گئے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر اور معروف ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق نے سہیل انجم کی تحریروں پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے ’’سہیل انجم ایک مدت سے اخباروں کے درون خانہ اسرار سے واقف ہیں۔ اردو صحافت کے ماضی و حال پر ان کی بصیرت افروز نظر ہے۔ وہ تحریر و قلم کا حتی المقدور پاس رکھتے ہیں۔ وہ اس لیے بھی مجھے عزیز ہیں کہ ان کی تحریریں شگفتگی سے خالی نہیں ہوتیں۔ مجھے ذاتی طور پر ان کی نگارشات میں موجود پرلطف جملے اکثر متاثر کرتے ہیں۔ ادب و انشا سے ہم آمیزی صحافت کے جوہر آشکار کرتی ہے اور دلنوازی بھی بخشتی ہے۔ یہ خوبیاں اخباروں کے کالموں سے مفقود ہوتی جا رہی ہیں۔ کچھ گنتی کے احباب ضرور ناموس صحافت کی پاسبانی اور ادب و انشا کی پرورش میں گامزن ہیں۔ اس حوالے سے سہیل انجم سے بہت توقعات ہیں‘‘۔ سہیل انجم کی تصنیف ’’احوال صحافت‘‘ کے آخر میں ان کے بارے میں ادب و صحافت کی مقتدر شخصیات کی آرا بھی اختصار کے ساتھ دی گئی ہیں جس سے یہ اندازا ہوتا ہے کہ علمی، ادبی و صحافتی حلقوں میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
انجم رومانی